Add To collaction

28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_1
حصہ_اول 
نام ونسب اور قرآن مجید میں آپ کا تذکرہ:-
آپ کا نسب یوں ہے: موسیٰ بن عمران بن قابث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ﷺ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
”اس قرآن میں موسیٰ کا ذکر بھی کر ، جو چنا ہوا اور رسول اور نبی تھا۔ ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور سر گوشی کرتے ہوۓ اسے قریب کرلیا اوراپنی خاص مہربانی سے اسکے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اسے عطافرمایا۔ (مریم:19 / 51-53) قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بہت سے مقامات پر آپ کا ذکر فرمایا ہے بعض مقامات پر اختصار کے ساتھ اور بعض مقامات پر تفصیل کے ساتھ۔
اللہ تعالی نے فرعون کو راہ ہدایت دکھانے اور ظلم وستم سے روکنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
 یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں ۔ ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کا صحیح صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جوایمان رکھتے ہیں۔ یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کوگروہ گروہ بنا رکھا تھا اوران میں سے ایک جماعت کو کمزور کر رکھا تھا۔ ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا۔ بے شک وہ مفسدوں میں سے تھا۔ پھر ہم نے چاہا کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کر دیا گیا تھا اور ہم انہی کو پیشوا اور ( زمین کا وارث بنائیں اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت واختیار دیں اور ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ ( منظر دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں ۔‘(القصص : 28/ 2-6)
اللہ تعالی نے واقعہ کو پہلے مختصر طور پر بیان فرمایا پھر اس کی تفصیل بیان کی چنانچہ اللہ تعالی نے بتایا کہ وہ اپنے نبی کے سامنے موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ  صیحح صیحح بیان فرماۓ گا یعنی اس قد صیحح کہ سننے والا تمام واقعات کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ ارشاد باری تعالی:  ’’یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کی تھی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ فرعون نے ظلم وطغیان اور بغاوت وعصیان کا راستہ اختیار کیا دنیا کی زندگی کو اہمیت دی اور رب عظیم و برتر کی اطاعت سے سرتابی کی اور ’’وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنارکھا تھا۔‘‘ یعنی اپنی رعیت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا۔  ’’ان میں ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا ۔‘‘ اس سے مراد بنی اسرائیل کی قوم ہیں جواللہ کے نبی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور اس زمانے میں پوری دنیا میں سب سے افضل تھے۔ اللہ تعالی نے ان پر اس ستم گر ظالم اور بدکردار کافر کو مسلط کر دیا جس نے انہیں غلام بنا لیا اور وہ ان سے ادنیٰ ترین پیشوں کا ذلیل ترین کام لیتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا۔ بے شک وہ مفسدوں میں سے تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور فرعون کا خواب:-
فرعون بنی اسرائیل سے اس قدر برا سلوک اس لیے کرتا تھا کہ بنی اسرائیل اپنی الہامی کتابوں کی روشنی میں آپس میں ابراہیم علیہ السلام کا یہ فرمان ذکر کرتے تھے کہ آپ کی اولاد میں سے ایک لڑکا پیدا ہو گا، جس کے ہاتھوں مصر کی سلطنت تباہ ہو جاۓ گی ۔ آپ نے یہ بات غالبا اس وقت فرمائی تھی جب مصر کے بادشاہ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ کی عزت پامال کرنے کی کوشش ہوئی اور اللہ تعالی نے ان کی عزت کو داغ دار ہونے سے محفوظ رکھا۔ (واللہ علم)
بنی اسرائیل میں یہ بشارت مشہورتھی ۔ ان سے سن کر قبطی بھی اس کا ذکر کر تے تھے حتیٰ کہ یہ خبر فرعون تک بھی پہنچ گئی۔ جب رات کے وقت بادشاہ کی محفل جمی ہوتی تھی تو کسی درباری نے اسے یہ بات بھی سنادی۔ اس نے اس لڑکے کی پیدائش کے خوف سے بنی اسرائیل کے تمام لڑکوں کے قتل کا حکم جاری کر دیالیکن تقدیر کے آگے تد بیرنہیں چلتی ۔ امام سدی رحمتہ علیہ نے کئی صحابہ کرام سے روایت کیا ہے کہ فرعون نے خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آئی اور مصر کے تمام قبطیوں کے گھر جلا گئی لیکن بنی اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ جب وہ بیدار ہوا تو اس خواب سے خوف زدہ تھا۔ اس نے اپنے کاہنوں ، عالموں اور جادوگروں کو جمع کیا اور ان سے اس کی تعبیر پوچھی ۔ انہوں نے کہا: یہ لڑکا انہی میں پیدا ہو گا اور اس کے ہاتھوں اہل مصر تباہ ہو جائیں گے اس لیے اس نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کوقتل کرنے کا اورلڑکیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا۔
اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’ پھر ہم نے چاہا کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کر دیا گیا تھا۔‘‘ اور وہ بنو اسرائیل تھے۔ ’’اور ہم ان کو پیشوا اور زمین کا وارث بنائیں ۔‘‘ یعنی آخر کارمصر کی حکومت اور سرز مین انہیں مل جاۓ ۔ اور یہ بھی کہ ’’اور ہم انہیں زمین میں قدرت واختیار د میں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ (منظر دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے تھے۔ یعنی ہم کمزوروں کو طاقتور،مغلوب کو غالب اور ذلیل کوعزت والا بنائیں گے چنانچہ بنی اسرائیل کو یہ سب کچھ نصیب ہوا۔ جیسے کہ اللہ تعالی نےفرمایا ہے: 
”اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کیے جاتے تھے، اس سرزمین کے مشرق ومغرب کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور آپ کے رب کا نیک وعد ہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہو گیا۔(الاعراف 137/7)
دوسرے مقام پر فرمایا:
بالآ خر ہم نے انہیں باغات سے، چشموں سے، خزانوں سے اور اچھے اچھے مقامات سے نکال باہر کیا ۔ اس طرح ہوا اور ہم نے ان ( تمام چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا ۔‘‘ (الشعراء26 / 57-59 )
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ) 
جاری ہے ۔۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   16
4 Comments

Anuradha

10-Sep-2022 03:21 PM

بہت بہت خوبصورت لکھا ہے💓💓

Reply

fiza Tanvi

14-Jan-2022 04:46 PM

Good

Reply

Anjana

28-Dec-2021 08:46 PM

Good

Reply